انٹرنیٹ کی کہانیاں

پہلی کہانی: انٹرنیٹ پر ذاتی تفصیلات دیکھ بھال کر شئیر کریں

احمد کی عمر گیارہ سال تھی اور وہ چھٹی جماعت میں پڑھتا تھا۔ احمد اور اس کے دوست محسن کو آن لائن لوڈو کھیلنا پسند تھا۔ کبھی وہ اکیلے کھیلتے تھے اور کبھی ساتھی بن کر دوسرے لوگوں کے ساتھ کھیلتے تھے۔

ایک دن آن لائن کھیل کے دوران احمد کی ملاقات راجا نام کے ایک کھلاڑی سے ہوئی۔ کھیل کے بعد راجا نے اس سے پوچھا کہ وہ کہاں رہتا ہے اور کیا کرتا ہے۔

احمد نے اسے بتایا کہ وہ لاہور میں رہتا ہے اور چھٹی جماعت میں پڑھتا ہے۔ راجا نے احمد سے کہا کہ وہ اُس کی آن لائن پروفائل دیکھ لے۔ احمد نے راجا کی پروفائل پڑھی تو اسے پتہ چلا کہ وہ بھی چھٹی جماعت میں پڑھتا ہے اور لاہور میں رہتا ہے۔ باتوں باتوں میں احمد کو معلوم ہوا کہ راجا اور اس کے مشغلے اور دلچسپیاں ایک جیسی ہیں۔ احمد راجا سے مل کر بہت خوش تھا اور اس نے راجا کو دوست بنانے کے بارے میں سوچا۔ احمد نے دیکھا کہ سوشل میڈیا پر راجا کے کافی دوست ہیں۔

کئی بار وہ آن لائن لوڈو میں ایک دوسرے کے ساتھی بنے۔ وہ کھیل کے بعد باتیں کرتے تھے اور راجا اکثر احمد سے سوالات پوچھتا رہتا تھا کہ اس کے خاندان میں کتنے افراد ہیں، اس کے والد کیا کرتے ہیں، اور کیا وہ اپنے دوستوں سے ملنے جلنے باہر جاتا ہے۔ احمد نے راجا کو اپنا پتہ اور فون نمبر دے دیا۔ راجا نے احمد سے اس کے گھر کی تصویریں بھی منگوائیں۔ راجا نے اس کے دوستوں کے بارے میں بھی پوچھا اور احمد نے اسے اپنے دوست محسن کے بارے میں بتایا۔ راجا محسن کا سوشل میڈیا اکاؤنٹ نہ دیکھ سکا کیونکہ وہ پبلک نہیں تھا۔ راجا نے محسن کو اپنی معلومات کھلے عام شئیر نہ کرنے پر مغرور کہا۔

"وہ اپنی معلومات صرف دوستوں کے ساتھ شئیر کرتا ہے،" احمد نے جواب دیا۔

راجا غصے سے بولا: "اس کا مطلب ہے کہ اس پر بھروسا نہیں کیا جاسکتا! وہ ایسا شخص نہیں جسے میں اپنا دوست بنا سکوں۔"

احمد کو یہ سن کر حیرانی ہوئی۔ یوں تو راجا آن لائن ہمیشہ بہت پُرخلوص اور خوش مزاج نظر آتا تھا۔ شاید راجا کسی وجہ سے برے موڈ میں ہے، احمد نے سوچا، اور اس کی بات پر زیادہ توجہ نہیں دی۔

ایک دن راجا نے احمد سے ہفتے کی شام کو ملنے کو کہا۔ احمد نے کہا کہ ہفتے کی صبح وہ اور اس کے گھر کے لوگ ایک شادی میں شرکت کے لیے فیصل آباد جا رہے ہیں، اور وہ اتوار کی رات کو بہت دیر سے اپنے گھر واپس لوٹیں گے۔ راجا نے احمد سے کہا کہ تو پھر وہ منگل کو اس سے ملنے آئے گا۔

ہفتے کو، احمد اور اس کے گھر والے فیصل آباد چلے گئے، اور اپنے رشتے داروں کے ساتھ اچھا وقت گذارا۔ احمد نے اپنی والدہ کو اپنے نئے دوست اور اس کے ساتھ ہونے والی ملاقات کے بارے میں نہیں بتایا۔

اتوار کی رات جب احمد کی فیملی واپس لوٹی تو انھیں اپنے گھر کا بیرونی دروازہ کھُلا ہوا ملا۔ انھوں نے سوچا کہ وہ شاید اسے ٹھیک سے بند کرنا بھول گئے ہوں۔ مگر جب وہ اندرونی دروازے پر پہنچے تو انھوں نے دیکھا کہ وہ بھی کھلا ہوا ہے۔ یہ دیکھ کر وہ گھبرا گئے۔ گھر کے اندر ان کا سب سامان ادھر اُدھر بکھرا ہوا تھا اور فرش پر گندے جوتوں کے نشان بنے ہوئے تھے۔ احمد کے والد کا لیپ ٹاپ اور احمد کی والدہ کے سونے کے زیورات غائب تھے۔ اور احمد کے نئے جوتے جو اس کے والدین نے اسے سالگرہ پر تحفے میں دیے تھے، انھیں بھی کوئی لے گیا تھا۔

احمد کے والد نے پولیس میں رپورٹ درج کروائی، لیکن پولیس والوں نے کہا کہ سامان کا ملنا تو بہت مشکل ہے۔

احمد کے والد بہت پریشان ہو گئے کیونکہ وہ کمپیوٹر کو اپنے بزنس کے لیے استعمال کرتے تھے۔ احمد کی والدہ رو رہی تھیں کیونکہ سونے کا سیٹ اُن کی مرحوم والدہ کی نشانی تھا۔

احمد راجا سے ملاقات کرنا چاہتا تھا لیکن گھر میں چوری کی وجہ سے وہ پریشان اور خوف زدہ تھا۔ اس نے راجا کو پیغام بھیجا کہ وہ منگل کو اس سے نہیں مل سکے گا۔ لیکن راجا کا کوئی جواب نہیں آیا۔

شام کو جب احمد نے اپنی امّی کے اسمارٹ فون سے راجا کو کال کی تو اس کا فون بند ملا۔ اس کے بھیجے گئے میسج کا بھی کوئی جواب نہیں آیا تھا۔ احمد حیران تھا کہ راجا کو اچانک کیا ہو گیا ہے۔ اس نے محسن کو اس بارے میں بتایا۔ محسن نے احمد کو بتایا کہ راجا نے آن لائن لوڈو پر اپنی پروفائل ڈیلیٹ کر دی ہے۔

اگلے دن احمد نے اپنے والد اور والدہ کو گھر میں چوری کے بارے میں بات کرتے سنا۔ وہ حیران تھے کہ چوروں کو کیسے پتا چلا کہ وہ اپنے گھر پر نہیں ہوں گے، کیونکہ وہ عام طور پر ہفتے کی چھٹیاں اپنے گھر میں ہی گذارتے تھے، اور ان چھٹیوں میں دوست اور رشتے دار ملنے ان کے گھر آیا کرتے تھے۔ یہ سن کر احمد کو یاد آیا کہ اس نے راجا کو بتایا تھا کہ وہ اُس دن گھر سے باہر ہو گا، اور اسے اپنا پتہ بھی دیا تھا۔ اسے یہ بھی یاد آیا کہ راجا نے اس سے پوچھا تھا کہ وہ کب جائے گا اور کب واپس لوٹے گا۔ راجا کے پاس احمد کے گھر کی تصویریں بھی تھیں جن میں گھر کا سامان بھی نظر آ رہا تھا۔

احمد اس بارے میں سوچتا رہا۔ اگلے دن اسکول کی چھٹی کے بعد احمد اور محسن راجا کے بتائے ہوئے پتے پر گئے۔ جب وہ دونوں وہاں پہنچے تو انھوں نے دیکھا کہ وہ ایک کریانے کی دکان تھی، اور دکان کا مالک اور آس پاس رہنے والے راجا نام کے کسی لڑکے کو نہیں جانتے تھے۔

احمد کو راجا کے اس دھوکے پر بہت غصہ آیا اور دکھ بھی ہوا۔ اس نے گھر جا کر اپنے والدین کو سب کچھ بتادیا۔ وہ پہلے تو ناراض ہوئے لیکن بعد میں اسے معاف کر دیا اور اسے سمجھایا کہ وہ دوبارہ کبھی بھی اجنبیوں کے ساتھ ذاتی معلومات شئیر نہ کرے، چاہے وہ کتنی ہی دوستی کیوں نہ ظاہر کریں۔

اس واقعے کے بعد احمد نے اپنے اکاؤنٹ پرائیویسی کو تبدیل کر دیا تاکہ صرف اس کے جاننے والے دوست ہی اس کی ذاتی معلومات کو دیکھ سکیں۔

اسباق: کہانی نمبر 1

- ذاتی معلومات، مثلاً گھر کا پتا اور فون نمبر وغیرہ کسی اجنبی کو نہ دیں۔

- اگر ذاتی معلومات غلطی سے کسی اجنبی کو بتا دی ہیں تو فوراً اپنے والدین کو بتائیں تاکہ وہ نقصان پر قابو پا سکیں۔

- محض انٹرنیٹ پر جان پہچان ہو جانے پر کسی شخص پر بھروسہ نہ کریں۔

- اپنی تصویریں کسی اجنبی کو نہ بھیجیں۔


دوسری کہانی :ہر آن لائن معلومات پر یقین نہ کریں

ایک دن اسکول کے بعد محسن احمد کے ساتھ کمپیوٹر لیب چلا گیا۔ چونکہ اب کچھ دنوں سے احمد کے گھر میں کمپیوٹر نہیں تھا، اسے اپنے ہوم ورک کے لیے کمپیوٹر لیب استعمال کرنی پڑتی تھی۔ محسن نے جلد ہی اپنا کام مکمل کر لیا اور عجیب و غریب کیڑوں کی ویب سائٹس دیکھنا شروع کر دیں، کیونکہ اسے کیڑے جمع کرنے کا بہت شوق تھا۔

محسن کو ایک نئی ویب سائٹ www.buy-alien-insects-online.com ملی، جس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ ان کے پاس ایسے کیڑے دستیاب ہیں جو پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے۔ ویب سائٹ پر کیڑوں کی بہت سی تصویریں تھیں، اور اُس ویب سائٹ کا دعویٰ تھا کہ یہ زمین پر پائے جانے والے دوسرے کیڑوں سے بالکل مختلف ہیں، اور کسی دوسرے سیّارے سے آئے ہیں۔ اور واقعی، ایسے کیڑے محسن نے اپنی زندگی میں پہلی بار دیکھے تھے۔

ان کیڑوں کی تصویریں دیکھ کر محسن کا شوق بہت بڑھ گیا اور وہ احمد کو ان کیڑوں کے بارے میں بتانے لگا۔ احمد اپنے ہوم ورک میں مصروف تھا اور اسے ابھی تک راجا کی طرف سے بے وقوف بنائے جانے پر بھی غصہ تھا۔ اس نے ویب سائٹ پر یونہی سرسری سی نظر ڈالی۔

محسن ان کیڑوں کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتا تھا۔ ویب سائٹ سے اسے معلوم ہوا کہ درجن بھر کیڑوں کی قیمت صرف 500 روپے تھی۔ وہ چھ ماہ سے پیسے بچا رہا تھا، اور اس کے پاس اتنے پیسے ہو گئے تھے کہ وہ ایک درجن کیڑے خرید سکے۔ لیکن جب اس نے ویب سائٹ پر معلومات دیکھیں تو اسے آرڈر کرنے کے لیے کریڈٹ کارڈ کی معلومات دینے کو کہا گیا۔ کریڈٹ کارڈ نہ ہونے کی صورت میں ایک اور لنک پر کلک کرنے کو کہا گیا تھا۔ جب محسن نے اُس لنک پر کلک کیا تو اسکول کا کمپیوٹر اچانک بند ہو گیا۔ محسن نے سوچا کہ شاید کمپیوٹر خراب ہو گیا ہو۔

محسن کے پاس اپنا تو کوئی کریڈٹ کارڈ نہیں تھا لیکن اس کے والد کے پاس کریڈٹ کارڈ ضرور تھا۔ اس دن جب اس کے والد کام سے گھر واپس آئے تو محسن ان کے کریڈٹ کارڈ کی معلومات حاصل کرنے کے لیے ضد کرنے لگا اور انھیں خلائی کیڑوں کے بارے میں بتانے لگا۔ اس کے والد ہنسنے لگے اور انھوں نے کہا کہ ایسے کوئی خلائی کیڑے نہیں ہوتے۔ محسن نے بڑے اعتماد سے کہا کہ خلائی کیڑے دنیا میں موجود ہیں، اور ویب سائٹ پر ان کی تصویریں بھی ہیں۔

محسن کے والد نے اپنا کمپیوٹر کھولا اور اسے دکھایا کہ آن لائن دھوکوں (scams) کی پہچان کیسے کی جاسکتی ہے۔ جب انھوں نے خلائی کیڑوں کی ویب سائٹ کے بارے میں معلومات درج کیں تو فوراً معلوم ہو گیا کہ یہ ایک دھوکا تھا جس میں جھوٹے دعوے کیے گئے تھے۔ جیسے ہی خریدنے والے اپنے کریڈٹ کارڈ کی معلومات آن لائن درج کرتے ہیں تو وہ معلومات چُرا لی جاتی ہیں۔ اُس لنک سے، جس پر محسن کے کلک کرنے کے بعد اسکول کا کمپیوٹر بند ہو گیا تھا، ایک خطرناک کمپیوٹر وائرس ڈاؤنلوڈ ہو جاتا تھا جو کمپیوٹر سے لوگوں کی معلومات چُرا لیتا تھا۔

محسن کے والد نے اُسے اس طرح کے آن لائن دھوکوں سے ہوشیار رہنے کے بارے میں تفصیل سے سمجھایا، اور اس بات پر محسن کی تعریف کی کہ اس نے بغیر پوچھے ان کے کریڈٹ کارڈ کی معلومات نہیں بھیجیں اور پہلے ان کی اجازت مانگی۔

’’کمال ہے! ان کے پاس ویب سائٹ پر خلائی کیڑوں کی تصویریں بھی تھیں، اور یہ بھی لکھا تھا کہ انھیں کیسے دریافت کیا گیا!‘‘ محسن نے کہا۔

'میں جانتا ہوں، یہ سچ معلوم ہوتا ہے،' اس کے والد نے جواب دیا۔ 'لیکن ہم ان تمام چیزوں پر یقین نہیں کر سکتے جو ہم آن لائن دیکھتے ہیں! تمھارے خیال میں یہ جھوٹی خبر کس نے لگائی ہو گی اور کیوں لگائی ہو گی؟'

'انھوں نے لگائی ہو گی جو جعلی کیڑے بیچنے کی کوشش کر رہے ہیں، تاکہ میں انھیں خریدوں؟‘‘ محسن نے کہا۔

’’بالکل! چاہے کوئی آن لائن پیش کش ہو یا خبر، اس کی ہمیشہ تحقیق کرو اور مشہور اخباروں کی ویب سائٹ سے بھی تصدیق کر لو۔

اگلے دن احمد نے محسن سے خلائی کیڑوں کے بارے میں پوچھا۔ محسن کو آن لائن دھوکے (scam) سے بے وقوف بنائے جانے پر بہت شرمندگی محسوس ہو رہی تھی، لیکن اس نے احمد کو سب کچھ بتا دیا۔ احمد کو خوشی ہوئی کہ محسن کے والد اس دھوکے (scam) کو پہچاننے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ محسن نے کمپیوٹر لیب میں جا کر وہاں کے انچارج کو وائرس ڈاؤنلوڈ ہو جانے کے بارے میں بتایا اور انھوں نے کمپیوٹر سے وہ وائرس نکال دیا۔

اس دن سے احمد اور محسن دونوں بینک اور کریڈٹ کارڈ معلومات کو آن لائن شئیر کرنے میں محتاط ہو گئے۔ وہ انٹرنیٹ کے لنکس پر کلک کرنے سے پہلے تحقیق کر لیتے تھے کہ وہ محفوظ ہے یا نہیں، اور ہمیشہ ایسی ویب سائٹس سے ہوشیار رہتے تھے جن میں انعامات کا اعلان ہوتا یا بڑے بڑے دعوے کیے جاتے تھے۔

اسباق: کہانی نمبر 2

- انتہائی پُرکشش پیشکش جو ناقابلِ یقین ہو جعلی ہوتی ہے۔

- آن لائن دی گئی معلومات کی مختلف ذرائع سے تحقیق کر لیں۔

- آن لائن لنکس اور ای میل پر آنے والی فائلوں پر دیکھ بھال کر کلک کریں۔

- والدین کی اجازت اور نگرانی کے بغیر بینک کی معلومات آن لائن استعمال نہ کریں۔


تیسری کہانی: مضبوط پاس ورڈ بنائیں اور اسے محفوظ رکھیں

ماریہ گیارہ سال کی تھی۔ اسے کتابیں پڑھنا اور ڈرائنگ کرنا پسند تھا۔ اخبار کے بچوں کے سیکشن کو پڑھتے ہوئے، اسے scams سے بچنے اور آن لائن محفوظ رہنے کے لیے مضبوط پاس ورڈ بنانے کے بارے میں پتہ چلا تو ماریہ نے بھی بڑے اور چھوٹے حروف، نشان اور نمبر استعمال کرتے ہوئے اپنے ای میل اکاؤنٹ کے لیے ایک نیا پاس ورڈ بنا لیا۔

کچھ روز بعد وہ اپنی خالہ یاسمین سے ملنے گئی۔ جب وہ ان کے گھر میں داخل ہوئی تو اس کی خالہ نے فون رکھتے ہوئے ماریہ سے کہا، "آج تو میں ایک بڑے نقصان سے بال بال بچی!"

"ایسا کیا ہوا، خالہ یاسمین؟" ماریہ نے پوچھا۔

"بینک منیجر نے مجھے یہ بتانے کے لیے فون کیا تھا کہ میرے بینک اکاؤنٹ کا پاس ورڈ کسی نے چرا لیا ہے۔"

"پھر آپ نے کیا کیا؟" ماریہ نے پوچھا۔

"بینک نے مجھے بتایا کہ مجھے اپنے اکاؤنٹ کا پاس ورڈ تبدیل کرنا چاہیے، اس لیے میں نے پاس ورڈ تبدیل کر دیا۔"

"مجھے امید ہے کہ آپ نے انھیں اپنا پاس ورڈ نہیں بتایا ہو گا۔"

"کیوں نہیں بتاتی! میں نے انھیں پاس ورڈ بتایا کیونکہ بینک والے میرے پرانے پاس ورڈ کی تصدیق کرنا چاہتے تھے۔"

"یاسمین خالہ، یہ ایک دھوکہ ہے! ذرا جلدی سے اپنے آن لائن اکاؤنٹ میں لاگ ان کریں۔ شاید ہم اسے اب بھی بچا سکیں!"

"کیسی باتیں کر رہی ہو، ماریہ؟ اچھا بیٹھو! میں نے بہت اچھا سالن بنایا ہے۔ ہم پہلے وہ کھائیں گے اور پھر تمھارے اسکول کے بارے میں باتیں کریں گے۔"

"نہیں یاسمین خالہ، پہلے آپ اپنے اکاؤنٹ کو بچائیں!"

"ٹھیک ہے، ٹھیک ہے، میں تمھیں اپنا پاس ورڈ بتاتی ہوں اور تم لاگ ان کر کے چیک کر لو جب تک میں دوپہر کے کھانے کی تیاری کرتی ہوں۔"

’’نہیں، نہیں یاسمین خالہ! آپ کو اپنا پاس ورڈ کبھی بھی کسی کے ساتھ شئیر نہیں کرنا چاہیے۔ پلیز آپ خود لاگ ان کریں اور اپنا اکاؤنٹ چیک کریں۔"

ماریہ کے اصرار پر یاسمین خالہ نے اپنا اکاؤنٹ لاگ ان کیا۔

ماریہ نے خالہ یاسمین سے کہا کہ سب سے پہلے وہ اپنے بینک اکاؤنٹ میں موجود ساری رقم کی موجودگی کی تصدیق کر لیں۔ پھر اس نے اپنی خالہ کو بتایا کہ کس طرح بڑے اور چھوٹے حروف، نشان اور نمبر استعمال کرتے ہوئے ایک نیا، زیادہ مضبوط پاس ورڈ بنایا جاسکتا ہے۔ خالہ نے اپنے بینک اکاؤنٹ کا نیا پاس ورڈ بنا لیا تب ماریہ کو اطمینان ہوا۔

پھر ان دونوں نے کھانا کھایا۔

شام کو خالہ یاسمین کے ساتھ کام کرنے والی ایک خاتون آئیں جو ان کے پڑوس میں رہتی تھیں۔ان کا نام رضیہ تھا۔ انھوں نے بتایا کہ ان کے بینک اکاؤنٹ سے ایک لاکھ روپے چوری ہو کر کسی نامعلوم اکاؤنٹ میں چلے گئے ہیں۔ ان کے پاس بھی کسی کا فون آیا تھا جو یہ ظاہر کر رہا تھا کہ وہ بینک سے ہے۔ کال تقریباً اسی وقت آئی تھی جب خالہ یاسمین کو جعلی کال موصول ہوئی تھی، اور اُن سے بھی ان کے اکاؤنٹ کا پاس ورڈ پوچھا گیا تھا۔

یاسمین خالہ نے انھیں بتایا کہ کس طرح ماریہ نے جلدی سے پاس ورڈ بدل کر ان کا اکاؤنٹ چوری ہونے سے بچا لیا ۔

رضیہ نے یاسمین خالہ سے کہا کہ وہ ماریہ کو اپنے ساتھ لے کر ان کے گھر آئیں تاکہ وہ انھیں مضبوط پاس ورڈ بنانے کا طریقہ سکھائے۔ پھر ماریہ نے مضبوط پاس ورڈ بنانے اور اسے برقرار رکھنے کے بارے میں جو کچھ معلوم تھا انھیں تفصیل سے بتایا۔ ماریہ نے ان سے احتیاط برتنے کے لیے کہا کہ کوئی بھی آن لائن یا فون پر پاس ورڈ مانگے تو ہرگز شئیر نہ کریں۔

ماریہ کے آن لائن تحفظ کے بارے میں اس درجے واقفیت سے یاسمین خالہ اور رضیہ دونوں بہت متاثر ہوئیں اور دونوں نے مل کر ماریہ کو کتابیں خریدنے کے لیے گفٹ کارڈ دیا۔

اسباق: کہانی نمبر 3

- کسی شخص کو اپنا پاس ورڈ نہ بتائیں۔

- چھوٹے بڑے حروف، اعداد اور نشانات کو استعمال کر کے مضبوط پاس ورڈ بنائیں۔

- اگر آپ کا پاس ورڈ کسی کو معلوم ہو جائے تو فوری طور پر اسے تبدیل کر دیں۔


چوتھی کہانی: دوسروں سے ہمدردی کریں

زین پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ اسکول کی چھُٹی ہو چکی تھی لیکن زین کلاس میں بیٹھا اسکول وین کا انتظار کرتے ہوئے جلدی جلدی اپنا ہوم ورک کر رہا تھا۔ اسے گھر جا کر اپنے اور اپنے بہن بھائیوں کے لیے لنچ تیار کرنا تھا۔ اس کے والد فوت ہو چکے تھے اور اس کی والدہ اپنے خاندان کی دیکھ بھال کے لیے دو نوکریاں کرتی تھیں۔ وہ دوسری نوکری ختم ہونے پر رات نو بجے گھر پہنچتی تھیں۔ اس لیے زین دوپہر کے کھانے کی تیاری اور گھر کی صفائی میں ان کی مدد کرتا تھا۔ وہ اپنے دو چھوٹے بہن بھائیوں کے اسکول کے کام میں بھی مدد کرتا تھا۔

زین کے کچھ ہم جماعتوں نے قریبی برگر شاپ پر لنچ اور اس کے بعد پارک جانے کا پلان بنایا تھا۔ ان میں سے ایک ساتھی زین کو ڈھونڈتا ہوا کلاس میں آیا، اور زین کو اپنے ساتھ چلنے کے لیے کہا۔

"نہیں شکریہ" زین نے جواب دیا۔ "مجھے گھر پہنچ کر اپنی چھوٹی بہن اور بھائی کو دوپہر کا کھانا دینا ہے۔"

"انھیں اپنے ساتھ لے آؤ!"

"ہمم… نہیں، میں ایسا نہیں کر سکتا۔ میری والدہ کو ہمارا گھر سے باہر کھانا پسند نہیں ہے۔"

"جیسے تمہاری مرضی زین!" یہ کہہ کر اس کا ہم جماعت چلا گیا۔

زین شرمندہ ہو گیا کیونکہ اس کے پاس باہر کے کھانے کے لیے جیب خرچ نہیں تھا۔ وہ ہمیشہ گھر پر ہی کھانا کھاتا تھا۔

گھر پہنچ کر اپنے کام نمٹانے کے بعد زین نے اپنی والدہ کو میسیج کیا اور انھیں گھر کے سب کام پورے ہو جانے کے بارے میں بتایا۔ پھر اس نے فون پر اپنا سوشل میڈیا اکاؤنٹ چیک کیا۔ اس کے ہم جماعتوں نے سیرو تفریح کی بہت سی تصویریں پوسٹ کی تھیں، جن میں ان کے برگر، فرائیز اور آئس کریم کھانے اور پارک میں سیر اور کشتی کی سواری کی تصویریں تھیں۔

زین نے ایک کمنٹ لکھا: 'برگر بہت مزے دار لگتے ہیں! کاش میں بھی وہاں ہوتا۔'

ملیحہ، ایک ہم جماعت نے جواب دیا، 'ارے، بچا کھچا کھانا زین کے لیے رکھ لو!'

'یہ بہت غلط بات ہے! زین تمہارا بچا ہوا کھانا کیوں کھائے گا!' مریم نے لکھا۔

ملیحہ نے کمنٹ کیا: 'زین ایک نوکر کی طرح ہے، جو ہمیشہ کھانا پکاتا اور صفائی کرتا رہتا ہے۔ یہ پکّی بات ہے کہ اسے بچی کھچی چیزیں کھانے سے خوشی ہو گی۔'

اس پر مریم نے لکھا: 'یہ بہت غلط بات ہے، ملیحہ! میرے خیال میں زین بہت ذمے دار اور محنتی لڑکا ہے۔ آپ اس کے پکائے ہوئے کھانے دیکھیں جو وہ بغیر کسی مدد کے بناتا ہے۔ اسکرین پر آپ جو سپر ہیروز دیکھتے ہیں وہ سب خیالی ہیں۔ اگر آپ حقیقی زندگی کا ہیرو دیکھنا چاہتے ہیں تو زین کو دیکھ لیں۔

ملیحہ نے غصے کی ایموجی پوسٹ کی اور سائن آف کر دیا۔

بعد میں، مریم اور زین نے آن لائن بات چیت کی، اور زین نے مریم کی حوصلہ افزائی اور حمایت پر اس کا شکریہ ادا کیا۔ زین نے کہا: سیر و تفریح ​​میں شامل نہ ہو پانا مشکل لگتا ہے، مگر میں جانتا ہوں کہ میری والدہ بہت محنت کرتی ہیں، اور میں ان سے باہر کھانے کے لیے پیسے نہیں مانگنا چاہتا۔'

ملیحہ نہیں جانتی، آپ ایک جیتے جاگتے ہیرو ہیں- آپ اپنے سب کام خود کرتے ہیں اور پھر بھی اسکول میں اچھے گریڈز حاصل کرتے ہیں۔'

زین کو اپنی دوست کی یہ بات سن کر بہت خوشی ہوئی اور وہ دونوں مل کر اپنا اپنا ہوم ورک کرنے لگے۔

اسباق: کہانی نمبر 4

- ہمیں دوسروں کے احساسات کو سمجھنے کی کوشش کر کے ان کی مدد کرنی چاہیے۔

- دھونس دھمکی سے ڈرا ہوا شخص افسردہ ہوتا ہے۔ اچھے الفاظ سے اور دوستانہ لہجے میں بات کر کے اسے تسلّی دیں۔

- اکثر وہ لوگ، جو ہمیں ٹی وی یا فلم میں ہیرو کے طور پر دکھائے جاتے ہیں، ہیرو نہیں ہوتے۔ عام لوگ جو زندگی میں مشکل حالات اور بُری چیزوں کا مقابلہ کر رہے ہوتے ہیں، وہ اصل ہیرو ہوتے ہیں۔

- ہمیں بُری اور تکلیف دہ باتوں کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔


پانچویں کہانی: بہادر بنیں اور کسی کی دھونس دھمکی اور بری حرکتوں کی شکایت کریں

حبیب کا گھرانا حال ہی میں کراچی منتقل ہوا تھا اور اس نے ایک نئے اسکول میں پانچویں جماعت میں داخلہ لیا تھا۔ وہ اپنے پرانے اسکول کے دوستوں کو یاد کرتا رہتا لیکن جلد ہی اس نے اسکول میں نئے دوست بنا لیے کیونکہ وہ خوش مزاج تھا اور پڑھائی میں بھی اچھا تھا۔

ایک دن جب وہ حساب کی کلاس کے لیے ہوم ورک کر رہا تھا تو اس کے ایک ہم جماعت اسلم نے اس سے کہا: دکھاؤ تم نے کیا لکھا ہے! حبیب نے پہلے کبھی اسلم سے بات نہیں کی تھی، لیکن کلاس میں اسلم کا برتاؤ بہت اچھا تھا۔ حبیب نے برا نہیں مانا، اور اسے اپنا کام دکھا دیا۔

"اچھا، اپنا کام جلدی مکمل کر لو!" اسلم چند سطریں پڑھ کر مسکرایا۔ "اور پھر میرے لیے بھی لکھ دو! اور تم اسے آج رات ضرور مجھے بھیج دینا۔ یہ میرا ای میل ایڈریس ہے۔"

حبیب گھبرا گیا اور کوئی جواب نہ دیا، لیکن اسلم کے جانے کے بعد، اس کے ہم جماعت زین نے بتایا کہ اسلم دوسرے بچوں سے اپنا ہوم ورک کرواتا ہے۔ ایک بار کسی لڑکے نے اسلم کا ہوم ورک کرنے سے انکار کر دیا تو اسلم نے اسکول کی چھٹی کے بعد اسے مارا تھا۔ اس کے بعد کسی نے انکار نہیں کیا۔

"کسی نے ٹیچر سے اس کی شکایت کیوں نہیں کی؟"

"شروع میں، ہم نے شکایت کی تھی۔" زین نے کہا، "لیکن اسلم نے اتنی صفائی سے جھوٹ بولا کہ ٹیچر نے الٹا ہمیں ڈانٹا کہ ہم اسے پریشان کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انھوں نے ہمیں اسلم سے معافی مانگنے کو کہا، کیونکہ کلاس میں اس کا برتاؤ بہت اچھا ہوتا ہے اور وہ ہمیشہ وقت پر اپنا ہوم ورک جمع کرواتا ہے۔ اس دن اسکول کی چھٹی کے بعد اس نے سب کو دھمکی دی۔ ہم دیکھ ہی چکے تھے کہ اس نے کس طرح ایک لڑکے کو مارا تھا، اس لیے ہم نے پھر کبھی اس کی شکایت نہیں کی۔"

حبیب گھر چلا آیا لیکن اسلم کے بارے میں سوچتا رہا۔

شام کو حبیب کے پاس اسکول کی ویب سائٹ پر اسلم کا ایک میسج آیا۔ اس میں صرف دو لفظ لکھے تھے: یاد رکھنا!

حبیب کو یہ پڑھ کر غصہ آیا اور اس نے فیصلہ کر لیا کہ کچھ بھی ہو، وہ اسلم کا ہوم ورک نہیں کرے گا۔ جب حبیب کی والدہ نے اس سے پوچھا کہ تم کیوں پریشان لگ رہے ہو، تو جواباً حبیب نے انھیں بتایا کہ وہ پریشان نہیں ہے۔ وہ اپنے والدین کو مزید پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا، کیونکہ وہ پہلے ہی کراچی منتقل ہونے کی وجہ سے دباؤ کا شکار تھے، اور ملازمت کی تلاش میں تھے۔

دوسرے دن صبح کو اُسے ڈر تھا کہ اسلم اس سے لڑے گا لیکن وہ اس سے بچ بھی نہیں سکتا تھا۔

حبیب اسکول کے دروازے سے داخل ہوا تو اسلم اس کا انتظار کر رہا تھا۔ وہ حبیب کے پاس آیا اور ہاتھ بڑھایا۔ "میرا ہوم ورک؟"

"میں نے تمھارا ہوم ورک نہیں کیا۔ تم اپنا ہوم ورک خود ہی کرو۔" حبیب نے جواب دیا۔

"کیا کہا؟" اسلم قریب آیا، اور اچانک حبیب کا بازو پکڑ کر اتنے زور سے مروڑا کہ وہ درد سے چیخنے لگا۔

"اسے ایک وارننگ سمجھو!" اسلم نے جاتے ہوئے کہا۔ "تم خوش قسمت ہو کہ ہوم ورک جمع کرانے کی آخری تاریخ کل ہے۔ اب تم میرا ہوم ورک آج رات ہی ای میل کر دو، ورنہ...!"

اسلم کے جانے کے بعد حبیب کلاس میں چلا گیا۔ اسے اپنی بےبسی پر غصہ آرہا تھا۔

حبیب جب گھر واپس آیا تو خود کو بہت بے بس اور دکھی محسوس کر رہا تھا۔

اُس کی والدہ نے اُسے بجھا بجھا سا دیکھا تو اُس سے پوچھا کہ کیا ہوا۔ جیسے ہی انھوں نے حبیب کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو وہ تقریباً چلّا اٹھا، کیونکہ اسلم کے بازو مروڑنے سے اسے بہت تکلیف ہو رہی تھی۔

اسے تکلیف میں دیکھ کر والدہ نے اپنے پاس بٹھایا اور وجہ دریافت کی۔ حبیب بہت بےبس محسوس کر رہا تھا لہٰذا اس نے انھیں سب کچھ بتا دیا جو پیش آیا تھا، اور یہ بھی کہ ٹیچر نے اسلم کی شکایت کرنے والے طالب علموں پر یقین نہیں کیا تھا۔

’’اب میں کیا کروں؟‘‘ حبیب نے روتے ہوئے کہا۔

"میں بتاتی ہوں!" اس کی والدہ نے کہا، اور اسے اپنی تجویز بتائی۔

شام کو حبیب کے میل پر اسلم کا ایک اور میسج آیا۔ اس میں لکھا تھا: یاد رکھنا!

"کیا یاد رکھوں؟" حبیب نے جواب میں لکھا۔

"میرا ہوم ورک کرنا یاد رکھنا، بے وقوف!' اسلم نے جواب دیا۔

"میں تمھارے لیے ہوم ورک نہیں کروں گا۔ تمھیں اپنا کام خود کرنا چاہیے۔"

"یاد کرو آج جب میں نے تمھارا بازو مروڑا تھا تو تم کیسے چیخے تھے؟ اگر تم نے میرا ہوم ورک نہیں کیا تو کل تم اس سے زیادہ زور سے چیخو گے کیونکہ میں تمھارا بازو توڑ دوں گا۔"

"جیسی تمھاری مرضی! میں تم سے نہیں ڈرتا!"

"تم دیکھنا کل میں تمھارے ساتھ کیا کرتا ہوں! کل تمھارا آخری دن ہو گا!"

"دیکھا جائے گا!" حبیب نے جواب میں لکھا۔

پھر حبیب نے اسلم کے میسجز کے اسکرین شاٹس لیے، جس میں اسلم کی آئی ڈی صاف پڑھی جا رہی تھی، اور انھیں اسکول کے گروپ پر پوسٹ کر دیا۔

حبیب کے اسکرین شاٹس پوسٹ کرنے کے چند منٹ کے اندر اندر، گروپ میں بہت سے دوسرے طلبا بھی اس بارے میں بات کرنے لگے، اور انھوں نے لکھا کہ کس طرح اسلم نے انھیں اسی طرح کی دھمکیاں دی تھیں اور انھیں تنگ کرتا تھا۔ والدین نے اس دھونس دھمکی کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے پرنسپل کو کال اور میسیج کرنا شروع کر دیے۔ پرنسپل نے جواباً لکھا کہ وہ خود اس معاملے کی جانچ پڑتال کریں گی اور اس سلسلے میں سخت کارروائی کی جائے گی، تاکہ دوبارہ ایسا کوئی واقعہ پیش نہ آئے۔

اگلی صبح جب حبیب اسکول میں داخل ہوا تو اس کے ہم جماعت بہت خوش نظر آ رہے تھے۔ ان سب نے اسلم کو اپنے والدین کے ساتھ دور کھڑے دیکھا۔ وہ خوف زدہ لگ رہا تھا۔ پھر ان کے ٹیچر اسلم اور اس کے والدین کو پرنسپل کے دفتر میں لے گئے۔

اسلم کو سزا میں ایک مہینے کے لیے اسکول بریک پر نہیں جانے دیا گیا، اور اس سے کہا گیا کہ وہ ہر اس طالب علم کو معافی کا خط لکھے جسے اس نے ڈرایا دھمکایا تھا۔ اس دن کے بعد پھر کبھی اسلم نے کسی کو تنگ نہیں کیا۔

اسلم کا رویّہ بھی بدل گیا اور کچھ مہینوں کے بعد حبیب اور اسلم اچھے دوست بن گئے۔

اسباق: کہانی نمبر 5

- دھونس دھمکی کے واقعے میں یہ چار کردار شامل ہوتے ہیں: تنگ کرنے والا، تنگ کیا جانے والا، خاموش تماشائی، اور آواز اُٹھانے والا۔

- دھونس دھمکی کے خلاف آواز اُٹھائیں تا کہ لوگ اپنا رویّہ تبدیل کر سکیں۔

- دھونس دھمکی کا شکار ہونے کی صورت میں والدین، ٹیچر یا کسی قابلِ بھروسہ شخص سے مدد مانگنا بہادری ہے۔

- دھونس دھمکی کے واقعے کے ثبوت کے طور پر ہمیشہ سکرین شاٹ لیں۔